ایکنا نیوز- ڈیلی پاکستان کے مطابق ممتاز مغربی سائنسدانوں اور یونیورسٹیوں کی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ روزہ صرف جسم کے لئے ہی نہیں بلکہ دماغ کے لئے بھی جادوئی اثرات رکھتا ہے۔ ڈاکٹر مارک میٹسن امریکا کی مشہور یونیورسٹی جانز ہاپکنز کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ میں پروفیسر آف نیوروسائنس ہیں اور اس یونیورسٹی کی نیوروسائنس لیبارٹری کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کی ایک ٹیم نے جسم و دماغ پر طویل گھنٹوں کے لئے کھانا پینا موقوف کرنے کے اثرات کا مطالعہ کیا۔
ان تحقیق کاروں کو پتا چلا کہ کچھ گھنٹوں کے لئے کھانا پینا مکمل طور پر منقطع رکھنے سے دماغ میں ایمی لائیڈز نامی عناصر کا ارتکاز کم ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ فالتو توانائی کی فراہمی میں آنے والا تعطل ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایمی لائیڈز عناصر کا دماغ میں جمع ہونا متعدد دماغی بیماریوں، خصوصاً الزائمرز کی وجہ بنتا ہے۔ اس تحقیق سے واضح ہوا کہ جسم کو کچھ گھنٹوں کے لئے کھانے پینے کی فراہمی مکمل طور پر بند کرنا دماغ کی صحت پر حیرت انگیز اثرات مرتب کرتا ہے، جس کا نتیجہ یادداشت کی بہتری اور ذہنی بیماریوں سے حفاظت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ڈاکٹر میٹسن کہتے ہیں کہ کھانا پینا روک دینے سے دماغ کو توانائی کی کمی کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے دماغ اڈاپٹوسٹریس رسپانس پاتھ ویز کو ایکٹیویٹ کردیتا ہے۔د ماغ کو ملنے والی توانائی کم ہونے سے عصبی سرکٹ دراصل مزید طاقتور اور مستعد ہوجاتے ہیں اور عصبی خلیوں کی سرگرمی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں دماغ کا عصبی نیٹ ورک مضبوط ہوتا ہے۔ اسی طرح روزے کے باعث دماغ میں نیورو ٹروفک فیکٹرز کی افزائش بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہ کیمیکل دماغ کے عصبی خلیوں کی افزائش اور دماغ میں نئے عصبی رابطے استوار کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ان تحقیقات کے بعد سائنسدانوں نے تسلیم کیا ہے کہ روزہ یادداشت کو بہتر بناتا ہے، نئی چیزیں سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے، ذہانت میں اضافہ کرتا ہے، جبکہ بڑھتی عمر کے ساتھ پیدا ہونے والی ذہنی بیماریوں سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔