جمعہ کے خطابات پر کنٹرول کی حکومتی کوششیں

IQNA

جمعہ کے خطابات پر کنٹرول کی حکومتی کوششیں

16:20 - March 15, 2018
خبر کا کوڈ: 3504327
بین الاقوامی گروپ:حکومت نے مساجد میں شدت پسندانہ اوردیگرمذہبی فرقوں کے خلاف نفرت انگیزتقاریرکی بیخ کنی کرنے کی خاطر مساجد میں جمعہ کے خطابات کی نگرانی اوران کوقانون کے دائرے میں لانے کا فیصلہ کیاہے

ایکنا نیوز- شفقنا-دی نیوزمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق وزرات داخلہ نے 44 موضوعات پرمبنی ایک فہرست تیارکی ہے جوپہلے ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طورپر 1003شہری ودیہی علاقوں کی مساجدسے وابستہ مذہبی علماء واسکالرزمیں تقسیم کی جائے گی اوران سے کہاجائےگاکہ وہ اس کے دائرے میں رہ کروعظ اورجمعہ کا خطبہ دیں۔اخبارکوملنے والی دستاویزات میں کہاگیاہے کہ یہ منصوبہ قومی انسداددہشت گردی کے ادارے (نیکٹا) کے ساتھ مشاورت کے بعد ترتیب دیاگیاہے۔

 

یہ دراصل مصر، سعودی عربیہ، اورعرب امارات کی تقلید میں کیاجارہاہے جہاں ریاست کی طرف سے مساجد میں جمعہ کے خطبہ کے لیے فراہم کردہ موضوعات دیے جاتے ہیں۔ جمعہ کے خطابات کی نگرانی کا فریضہ اسپیشل برانچ انجام دے گی اوراس کی ہفتہ واررپورٹ ضلعی ڈپٹی کمشنرکے پاس جمع کرائی جائے گی۔ اس سلسلے میں علماء کواعتمادمیں لینے کی خاطر وزیرداخلہ احسن اقبال نے مختلف مکاتب فکرکے علماء ساتھ اجلاس منعقد کیا۔ اسلام آباد کی مساجد سے تعلق رکھنے والے علماء نے اجلاس کے بعد اخبارکوبتایاکہ وہ حکومت کے ساتھ دہشت گردی اورفرقہ ورایت کا قلع قمع کرنے کی خاطرتعاون پرتیارہیں مگروہ حکومت کی طرف سے جمعہ کے دن پہلے سے دیے گئے تیارخطبہ کوپڑھنے کیلئے ہرگزتیارنہیں ہیں۔ علماء کے مطابق حکومت نے ان کوبتایاکہ انتظامیہ ملک بھرکے علماء کوپہلے سے لکھاگیاجمعہ کا خطبہ فراہم کرے گی اورعلماء ان کوپڑھیں گے، لیکن علماء کے بقول انھوں نے حکومت کی اس تجویزکوقبول نہ کرنے کافیصلہ کیاہے۔

وزرات داخلہ نے ضلعی انتظامیہ کوہدایت کی ہے کہ علماء کی ایک کمیٹی بنائی جائے جوجمعہ کے خطبے کے ایکشن پلان کواسٹریم لائن بنانے کاکام کرے۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آبادکاکہناہے کہ وہ چنددنوں میں اس کمیٹی کااعلان کردیں گے۔ حکومت کوامید ہے کہ یہ کمیٹی علماء کواصلاحات قبول کرنے پرقائل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ضلعی حکومت یوں بھی پرامید ہے کہ اسلام آباد کے 1003مساجد میں سے 86 مساجد پہلے ہی محکمہ اوقاف کے زیرنگرانی چلتی ہیں۔ حکومت کوامید ہے کہ اس طرح اسلام آبادمیں امن کے قیام میں مددمل سکتی ہے۔ کیونکہ دستاویزکے مطابق پاکستانی مساجد میں لاؤڈاسپیکرکا فرقہ ورانہ نفرت بڑھانے، اوردیگرمذہبی واقلیتی گروہوں کے خلاف تعصب پھیلانے کے لیے غلط طورپراستعمال کیاجاتاہے۔ جبکہ کچھ لوگ اس سے دہشت گردی اورتنگ نظری کوپھیلانے کاکام کرتے ہیں۔

دستاویزمیں واضح طورپرحکومت کے عزائم بیان کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ شدت پسندی اورنفرت انگیزتقاریر، ریاست کے خلاف بغاوت پرمبنی موادکی بیخ کنی ہرحال میں ہونی چاہئے۔ مساجد کے علماء کوگھیرے میں لانے کی خاطر انسداد دہشت گردی کے ادارے، اوقاف کے محکمہ اورضلعی انتظامیہ کے اجلاسوں میں اس کے لئے مکنیزم اورجمعہ کے خطبے کے ممکنہ موضوعات زیربحث آئے۔ ماہرین نے خطابات کو ایشوزجیسے خواتین کے حقوق، اتحادبین المسلمین، ختم نبوت، تجارت کے اسلامی اصول، صفائی اورصحت، اسلامی ریاست کا نظریہ، محنت کی اہمیت، برداشت، رشوت اورایمانداری وغیرہ کے گردمنظم کرنے کی تجویزدی۔مساجد کے لاوڈاسپیکرکئی ایک مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ اذان، قران اورحدیث کے تراجم اورتشریحات، جمعہ وعیدین کے خطابات سےلے کر بچوں کی گمشدگی ، فوتیدگی ،نمازجنازہ، چندہ کے اعلانات کے لیےبھی استعمال ہوتے ہیں۔ بعض علماء فجرکی نمازکےبعد قرآن اورحدیث کے ترجمہ اورتشریح شروع کرتے ہیں جبکہ دیگرنمازعشاء کے بعد وعظ کرتے ہیں۔ حکومت کی اولین کوشش یہ ہے کہ لاؤڈاسپیکرمحض اذان یا زیادہ سے زیادہ جمعہ کے خطبہ کے لیے استعمال کیاجائے۔ حکومت چاہتی ہے کہ مساجدمحض عبادت تک محدودرکھی جائیں اوراس کی دیگرسرگرمیاں محدود کی جائیں۔ یوں امید کی جاتی ہے کہ اس سے شدت پسندی اورفرقہ ورایت کی بیخ کنی کرنے میں مددملے گی۔ حکومت کے لیے ناصرف یہ اہم ہے کہ علماء کس قسم کےآیات اوراحادیث منتخب کرتے ہیں بلکہ ان کی تشریح کیسے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی خواہش ہے کہ مقدس کتب کی تعیبروتشریح میں زمان ومکان کا خیال رکھاجائے۔ لیکن ریاست کے لیے سب سے زیادہ اہم مساجد وہ نہیں جو پوش علاقوں میں واقع ہیں بلکہ وہ ہیں جوگنجان نیم شہری علاقوں، کچی آبادیوں اوردیہات میں واقع ہیں۔ بڑے شہروں کے گردپھیلے ہوئے تجارتی مراکزاورکچی آبادیوں کے مساجد میں امریکی قبضوں اورجنگوں سے لے کرمشرق وسطیٰ، افغانستان، کشمیرمیں جاری ظلم وستم اورجہاد سے لے کرحکومت کے اقدامات اورعوامی مسائل پربھی بات کی جاتی ہے۔ البتہ عوام میں علماء کے وعظ اورخطاب کی پذیرائی یکساں نہیں پائی جاتی۔ علماء اپنے سامنے بیٹھے ہوئے سامعین کے سماجی پس منظرکوسامنے رکھ کربات کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مخصوص سماجی گروہوں میں مختلف علماء اوران کی پسندیدگی کی وجہ مختلف ہے۔

حکومت کی مساجد اورعلماء کوکنٹرول کرنے کی کوششیں کس حدتک بارآورثابت ہوتی ہیں، یہ کہناقبل ازوقت ہے۔ لیکن مساجد اورعلماء سے لے کرجمعہ کے خطابات کوکنٹرول کرنے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہے۔ اس سے قبل 2015 میں پنجاب بھرمیں مساجد میں لاؤڈاسپیکرکے استعمال سے متعلق قوانین متعارف کرائے گئے تھے۔ جنوری 2015میں پنجاب حکومت نے صوبہ بھرکی مساجد اورمدارس میں اذان اورجمعہ کے خطاب کے لیے ایک لاؤڈاسپیکرکے استعمال کا آرڈینس جاری کیا۔ اس آرڈینس کے مطابق عبادت خانہ چاردیواری سے باہردس گزکے فاصلہ سے زیادہ آوازپرپابندی لگادی گئی۔ البتہ ایک لاؤڈاسپیکرجوآذان اورجمعہ وعیدین کے خطابات، میت کیلئے اعلان، یا کسی چیزیافرد کی گمشدگی کے استعمال کواس سے مستثنیٰ قراردیاگیا۔ پنجاب میں لاؤڈاسپیکرکے استعمال سے متعلق قوانین ایک آرڈینس 1965 کی شکل میں موجودہے اور2013اور 2015میں ان کی خلاف ورزی کی اطلاعات موجودہیں۔ پنجاب حکومت نے دوہزارسے زائد علماء کواس کی خلاف ورزی پر گرفتار بھی کیا گیا۔ اس سے لگتاہے کہ اس سے پہلے کی مہم کسی خاص کامیابی سے ہمکنارنہ ہوسکی۔ حکومت کے لیے شاید محکمہ اوقاف کے تحت چلنے والے مدارس کو کنٹرول کرنازیادہ آسان ہولیکن محکمہ اوقاف کے کنٹرول سے باہر مدارس ومساجد پرکنٹرول آسان نہ ہوگا۔ البتہ جنرل مشرف دورمیں اس طرح کی کوششیں عارضی کامیابی سے ہمکناربھی ہوئیں تھیں لیکن سیاسی حکومتوں کے مذہبی عناصرسے باربارسمجھوتے اورردعمل کاخوف اوردباؤ اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

پاکستان میں شدت پسندی، دہشت گردی اورفرقہ ورایت کے موضوع پرلکھی گئی امریکی رپورٹوں میں مساجد اورعلماء کے دہشت گردی اورفرقہ ورایت کی حوصلہ افزائی کا ذکرکثرت سے ملتاہے۔ ان رپورٹوں میں ان کے کنٹرول کیلئے تجاویزبھی دی جاتی ہیں۔ اسلامی عبادت خانوں اورمدارس کوشدت پسندی اورفرقہ ورایت پھیلانے کا اہم ذریعہ ماناجاتاہے، لیکن دوسری طرف لبرل عناصرملک میں تعلیمی نظام میں موجودخامیوں کی طرف بھی اشارے کرتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ مدارس ہی نہیں بلکہ ملک کاتعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں میں پڑھایاجانے والانصاب اوراساتذہ تک شدت پسندی، تنگ نظری اورفرقہ ورایت کوفروغ دیتے ہیں۔ دیگراس میں غربت اورمحرومیوں کا اضافہ کرتے ہیں جس سے مذہبی عناصرفائدہ اٹھاتے ہیں۔

سعودی عرب، عرب امارات اورمصرمیں سرکارکی طرف سے خطبے فراہم کیے جاتے ہیں اورسختی سے ان پرعملدرآمد کرایاجاتاہے۔ اسلامی تاریخ میں خلیفہ کاذکرخطبہ میں کیاجاتاتھااوریہ ایک طرح سے ان سے وفاداری استوارکرنے کے مترادف سمجھاجاتاتھا۔ یوں خطبوں کی ایک تاریخی حیثیت مسلم ہے۔ خلیج کے ممالک میں دیگرسخت ترین قوانین کے ساتھ سخت مذہبی تسلط بھی دیکھنے میں آیاہے۔ یوں عبادت خانوں پرسخت اورکڑی نظررکھی جاتی ہے۔ البتہ پاکستان میں کئی ایک وجوہات کی بناء پر اس طرح کی کوششیں ابھی تک کامیابی سے ہمکنارنہیں ہوسکیں۔ پاکستانی ریاست کوبیرونی اوراندرونی معاملات کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ عوامی مزاحمت اورردعمل کا بھی خوف درپیش رہتاہے۔ پاکستان کی افغان اورکشمیرپالیسی اوروہاں مزاحمت کی حوصلہ افزائی کے لیے ماحول بناناپڑتاہے۔ دوسری طرف مذہبی سیاسی پارٹیوں کا عمل دخل اس میں مانع رہتاہے۔حکومت کی موجودہ کوشش کوعالمی پیمانے پراٹھائے گئے اقدامات کے دباؤمیں کی گئی زیرغورحکمت عملی کی روشنی میں دیکھاجاسکتاہے۔ پاکستان پرامریکہ اور اپنے پڑوسی ممالک کادباؤہے کہ وہ شدت پسندی کوکنٹرول کرنے کیلے عملی اقدامات کرے۔

نظرات بینندگان
captcha